کچھ سفینے ہیں جو غرقاب اکٹھے ہوں گے

Poet: عمیر نجمی By: Tooba, Toronto
Kuch Safinay Hain Jo Garqaab Ikathay Hon Ge

کچھ سفینے ہیں جو غرقاب اکٹھے ہوں گے
آنکھ میں خواب تہہ آب اکٹھے ہوں گے

جن کے دل جوڑتے یہ عمر بتا دی میں نے
جب مروں گا تو یہ احباب اکٹھے ہوں گے

منتشر کر کے زمانوں کو کھنگالا جائے
تب کہیں جا کے مرے خواب اکٹھے ہوں گے

ایک ہی عشق میں دونوں کا جنوں ضم ہوگا
پیاس یکساں ہے تو سیراب اکٹھے ہوں گے

مجھ کو رفتار چمک تجھ کو گھٹانی ہوگی
ورنہ کیسے زر و سیماب اکٹھے ہوں گے

اس کی تہہ سے کبھی دریافت کیا جاؤں گا میں
جس سمندر میں یہ سیلاب اکٹھے ہوں گے

Rate it:
Views: 1136
29 Mar, 2021
More Umair Najmi Poetry