کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و مے خانہ ہیں مدت سے خموش
میں نے پایا ہے اسے اشک سحرگاہی میں
جس در ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش
صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش