کيا بتاؤں دوستوں تمہيں کہ ميں کس دوار کو پہنچا
ميں صاحبِ اختيار کسطرح عہدۂ برخاست کو پہنچا
صاحبوں شب نکاح تھی ميں تھا اور وہ تھے
يوں لگا گويا عشق ميرا اب اختتام کو پہنچا
ايجابِ اسيری کا اس وقت مجھے گمان ہوا
جس لمحہ لفظِ قبول ميرا اپنے انجام کو پہنچا
قبل از نکاح جو ہميشہ ملتجی انداز رہا کيے
بعد از نکاح انکا ہر لفظ درجہ فرمان کو پہنچا
رتبہ پيری بھی تو تھا انکے ظلم و ستم کا تقاضی
يونہی تو نہيں يہ ارسل اس مقامِ فراز کو پہنچا
آگئے وہ لمحاتِ کرب اکبار پھر سے ياد مجھے
جس دم دست ميرا زخم بيلن کے نشان کو پہنچا
پر مبتلائے درد جسم ہوں تو اطمينان روح بھی ہے
کہ زخم در زخم سہی مگر انسانيت کی معراج کو پہنچا
اور اسقدر کام آيا انکا خوفِ قرب عبادت کو ميری
کہ پھر ہر سجدہ شب ميرا صبح کی تلاش کو پہنچا