کسی کے ہجر میں جینا مُحال لگتا ہے
جبھی تو قورمہ بھی باسی دال لگتا ہے
جو پہلوانوں کی لڑکی سے پیار کر بیٹھے
پھر اُس غریب کا بچنا خیال لگتا ہے
نصابِ عشق میں ماہر ہیں وہ سبھی لڑکے
پڑھائی کرنا جنہیں بس زوال لگتا ہے
کسی کے عشق کا یہ سب کمال لگتا ہے
جو گھر تمہارا سِول اسپتال لگتا ہے
اگرچہ رُوٹھنا ہے شان دلبری کی مگر
“اُسے منانے میں اِک پُورا سال لگتا ہے“
بناء اجازت کسی مال پہ نظر توبہ
مگر پڑوس کا مُرغا حلال لگتا ہے
جو دِیدِ یار کو پہنچے تو تِیرگی پائی
خَلُوص واپڈا کا حسبِ حال لگتا ہے
خُدا نَخواستہ جو شخص بن گیا ہو میاں
اُس کم نصیب کا ہنسنا کمال لگتا ہے
مریضِ ہجر کو ٹانک نہ گولیاں دینا
اُس بے خرد کا قریب انتقال لگتا ہے
گئے دِنوں میں کہ جینا تھا جس کے بن مُشکل
اب اُس کے سنگ ہی رہنا وبال لگتا ہے
سُنا ہے سرور ہیں اُس بزم میں بھی نغمہ سرا
ادب نوازوں کا بستی میں کال لگتا ہے