نگاہوں میں تیر سانپ جو آستین میں رکھتے ہیں
صورت واللہ وہ کتنی حسین رکھتے ہیں
گفتار دلکش میں نہیں ثانی کوئی اُن کا
زہر زبان میں کتنا میرے ہم نشین رکھتے ہیں
ہوتا نہ کیونکر گھائل آخر دل ہی تو ہے
مستی آنکھوں میں مسکان لبوں پہ دلنشین رکھتے ہیں
ہم ہار گے سب کچھ وارفتگیِ محبت میں
شعلہ عجب سا بدن میں نازنین رکھتے ہیں
ہم سمبلتے کیسے ہم کھاتے نہ دھوکہ کب تلک
وہ فتنہ حُسن برپا ازل سے سر زمین رکھتے ہیں