کہا یہ کس نے سفر میں بہت اکیلی ہے
تری صدا مری آواز کی سہیلی ہے
خوشی ہے مجھکو بہت اپنے ہار جانے کی
یہ کیسا کھیل تری یاد مجھ سے کھیلی ہے
اُلجھتی جائےگی سُلجھانا چاہوگے جتنا
یہ زندگی کہاں آسان سی پہیلی ہے
ہُنر تھا جسکو چراغوں کی لو کترنے کا
اُسی کی آج اندھیرے نے جان لے لی ہے
بہت پُرانا ہے سورج کی روشنی کا نظام
کرن کرن مگر اب بھی نئ نویلی ہے
یہ مانا تاج محل دیدہ زیب ہے لیکن
حسین اُس سے بھی مزدور کی ہتھیلی ہے
سجے سجائے ملیں گے یہاں پہ لفظ تمام
غزل نہیں یہ مضامین کی حویلی ہے
بظاہر اپنی گذرتی ہے زندگی شہپر
حقیقتًًا تو ہر اٍک سانس ہم نے جھیلی ہے