کہتے ہو نہ دینگے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدّعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی دردِ بے دوا پایا
دوست دارِ دشمن ہے اعتمادِ دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نا رسا پایا
سادگی و پرکاری بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈھا تم نے بار ہا پایا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا