ایک نمکین غزل جس کا پہلا شعر اپنے ہی لئے ہے :)
کہیں مطلع نہیں ہوتا، کہیں مقطع نہیں ہوتا
غزل کے نام پر صاحب یہاں کیا کیا نہیں ہوتا
ہماری بے خودی ہے یہ، کہ تم آسیب ہو جاناں؟
وہاں مِلتا ہے پیمانہ، جہاں رکھا نہیں ہوتا
ہزاروں غم ہیں دنیا میں مگر شاعر کا غم اِتنا
جو اچھا شعر سنتا ہوں، وہ شعر اپنا نہیں ہوتا
بہت سچے تو ہیں بچے مگر ہیں عقل کے کچے
خدایا عقل دے اِن کو، کہ سچ اچھا نہیں ہوتا
سنی جب چاپ قدموں کی رفو چکر ہوئے دونوں
کہ عشق اندھا تو ہوتا ہے، مگر بہرا نہیں ہوتا
تلفظ "وَزْن" ہے اِس کا، مجھے معلوم ہے لیکن
یہاں میں "وَزْن" باندھوں تو "وَزَن" پورا نہیں ہوتا
مُنیبؔ ایسا بھی کیا غم ہے کہ سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہو
سُخن کو ہمنوا کر لو، سفر تنہا نہیں ہوتا
- اِبنِ مُنیبؔ
-------------------
(اگرچہ اِس بات پر اختلاف ہے کہ مطلع و مقطع غزل کے لئے کس قدر ضروری ہیں، پر شاید اکثر شعراء اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ اِن سے غزل کا حُسن بہت بڑھ جاتا ہے۔
خیر، اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مطلع و مقطع کے نام پر بے معنی اشعار زبردستی بھرتی کیے جائیں)۔