کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے
Poet: اسماعیل By: اسماعیل, Faisalabadکیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے
گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے
کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس
شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے
اس ظلمت حیات میں اک لفظ پیار کا
جب مل گیا تو ماہ منور ملا مجھے
صورت گران عصر کا تھا انتظار کش
تیری رہ طلب میں جو پتھر ملا مجھے
روز ازل سے کار گہہ ہست میں سہیلؔ
دل ہی غم حیات کا محور ملا مجھے
More Adeeb Sohail Poetry
کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے
گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے
کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس
شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے
اس ظلمت حیات میں اک لفظ پیار کا
جب مل گیا تو ماہ منور ملا مجھے
صورت گران عصر کا تھا انتظار کش
تیری رہ طلب میں جو پتھر ملا مجھے
روز ازل سے کار گہہ ہست میں سہیلؔ
دل ہی غم حیات کا محور ملا مجھے
گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے
کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس
شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے
اس ظلمت حیات میں اک لفظ پیار کا
جب مل گیا تو ماہ منور ملا مجھے
صورت گران عصر کا تھا انتظار کش
تیری رہ طلب میں جو پتھر ملا مجھے
روز ازل سے کار گہہ ہست میں سہیلؔ
دل ہی غم حیات کا محور ملا مجھے
اسماعیل






