کیا ضروری کہ گروں میں تو سنبھالے کوئی
اور مرے پاؤں کا کانٹا بھی نکالے کوئی
خوشبوؤں کی طرح چاہیں گے زمانے والے
پہلے کردار کو پھولوں سا بنا لے کوئی
آج کے دور میں شہرت کی تمنا ہو اگر
اپنے چہرے پہ کئی چہرے لگا لے کوئی
اک دیا ہم نے جلایا جو سر راہ گزر
کر نہ دے اس کو ہواؤں کے حوالے کوئی
شب کی تاریکی میں بھی نور کا عالم ہوگا
پہلے پلکوں پہ ستاروں کو سجا لے کوئی
چاہے تو اپنے ہر اک حسن عمل سے آفاقؔ
اپنے ماں باپ کی ہر وقت دعا لے کوئی