کیا غم اسے کہ لچا، لفنگا کہیں جسے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
اب اپنی حرکتوں سے کترتا ہے سب کے کان
اپنے بڑوں کا باپ ہے بچہ کہیں جسے
دور ِ جدید میں یہی قاتل کی مثل ہے
وہ ڈاگدار صیب،مسیحا کہیں جسے
اس کے گلے میں سوز ہے نزلے کی مار سے
بیمار ِ دائمی ہے گوۤیا کہیں جسے
بیوی کا رعب تاب و تواں ساتھ لے گیا
ویسے تو ٹھیک ٹھاک ہے،ہکلا کہیں جسے
جو ہےدرست لوگ اسے کہتے ہیں سب غلط
سیدھا ہے اصل میں وہی الٹا کہیں جسے
ملتی نہیں ہے مولوی ڈیزل!تری مثال
"ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے"
سادہ زباں میں کہتے ہیں شوہر اسے نوید
اہلِ زمانہ عقل کا اندھا کہیں جسے