کیا ملا حال دل اس کو سنا کے
خاموش رہا پھر چل دیا مسکرا کے
پھر ملنے پہ مجبور کرتا ہے
دھیمے سے تیرا بات کرناشرما کے
وہ آیا نہ آئے گا، پھر بھی ہم
بیٹھے ہیں رستے میں آنکھیں بچھا کے
ہم جس کی تلاش میں سر گرداں ہیں
بیٹھا نہ ہو کہیں ہمیں بھلا کے
چمن کو آراستہ کیا گیا ہے
تیرے حسن سے کچھ رنگ چرا کے
دنیا نے اسے بیوفائ سے تعبیر کیا
کیوں زندہ ہیں تجھ کو نہ پا کے
دیکھو داستان وفا لکھی اشفاق نے
اپنے بدن کا ہر قطرہ خون جلا کے