کیا پوچھے ہے بر خود غلطیہائے عزیزاں خواری کو بھی اک عار ہے عالی نسبوں سے گو تم کو رضا جوئیِ اغیار ہے لیکن جاتی ہے ملاقات کب ایسے سببوں سے مت پوچھ اسد! غصۂ کم فرصتیِ زیست دو دن بھی جو کاٹے‘ قیامت تَعبوں سے