کیا کہیں تجھ سے کہ کس کس کے کرم ہیں ہم ہیں
کچھ ترے کچھ تری دنیا کے ستم ہیں ہم ہیں
تو نے پوچھا ہے تو احوال بتا دیتے ہیں
بس تری یاد ہے اور آخری دم ہیں ہم ہیں
ہائے کیا جان کے دروازہ نہ کھولا اس نے
ہم پکارا ہی کیے یار یہ ہم ہیں ہم ہیں
کیسے کیسے وہ کیا کرتا ہے وعدے ہم سے
صبح سے شام تلک اس کے بھرم ہیں ہم ہیں
ساقیا ہم سے بھی دیرینہ مراسم ہیں ترے
یہ جو محروم قدح غرق الم ہیں ہم ہیں
تو ہی شیرازۂ جاں ہے تو ہی شیرازۂ دل
جب تلک ہم پہ ترے جور و ستم ہیں ہم ہیں
جن کو مجنوں بھی کیا کرتا ہے جھک کر داب
گرچہ اس طرح کے عاشق بڑے کم ہیں ہم ہیں
یہ ہمارا ہے کسی اور کا لاشہ تو نہیں
کس لیے آنکھ کے گوشے ترے نم ہیں ہم ہیں
ساقیا حفظ مراتب کا ذرا دھیان رہے
ایسا لگتا ہے کہ معیار سے کم ہیں ہم ہیں
غیر کے دم سے ہے رونق بھی چراغاں بھی وصیؔ
تیری محفل میں اگر سبز قدم ہیں ہم ہیں