کیا ہو گیا ہے گیسوئے خم دار کو ترے
آزاد کر رہے ہیں گرفتار کو ترے
اب تو ہے مدتوں سے شب و روز روبرو
کتنے ہی دن گزر گئے دیدار کو ترے
کل رات چوب دار سمیت آ کے لے گیا
اک غول طرحدار سر دار کو ترے
اب اتنی کند ہو گئی دھار اے یقیں تری
اب روکتا نہیں ہے کوئی وار کو ترے
اب رشتۂ مریض و مسیحا ہوا ہے خوار
سب پیشہ ور سمجھتے ہیں بیمار کو ترے
باہر نکل کے آ در و دیوار ذات سے
لے جائے گی ہوا در و دیوار کو ترے
اے رنگ اس میں سود ہے تیرا زیاں نہیں
خوشبو اڑا کے لے گئی زنگار کو ترے