کیسا مفتوح سا منظر ہے کئی صدیوں سے
میرے قدموں پہ مرا سر ہے کئی صدیوں سے
خوف رہتا ہے نہ سیلاب کہیں لے جائے
میری پلکوں پہ ترا گھر ہے کئی صدیوں سے
اشک آنکھوں میں سلگتے ہوئے سو جاتے ہیں
یہ میری آنکھ جو بنجر ہے کئی صدیوں سے
کون کہتا ہے ملاقات مری آج کی ہے
تو مری روح کے اندر ہے کئی صدیوں سے
میں نے جس کے لیے ہر شخص کو ناراض کیا
روٹھ جائے نہ یہی ڈر ہے کئی صدیوں سے
اس کو عادت ہے جڑیں کاٹتے رہنے کی وصیؔ
جو مری ذات کا محور ہے کئی صدیوں سے