کیسی کیسی آیتیں مستور ہیں نقطے کے بیچ
کیا گھنے جنگل چھپے بیٹھے ہیں اک دانے کے بیچ
رفتہ رفتہ رخنہ رخنہ ہو گئی مٹی کی گیند
اب خلیجوں کے سوا کیا رہ گیا نقشے کے بیچ
میں تو باہر کے مناظر سے ابھی فارغ نہیں
کیا خبر ہے کون سے اسرار ہیں پردے کے بیچ
اے دل ناداں کسی کا روٹھنا مت یاد کر
آن ٹپکے گا کوئی آنسو بھی اس جھگڑے کے بیچ
سارے اخباروں میں دیکھوں حال اپنے برج کا
اب ملاقات اس سے ہوگی کون سے ہفتے کے بیچ
میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی
وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ