کیسے کہوں کہ جھوٹ سے نسبت نہیں مُجھے
بیگم سے مار کھانے کی چاہت نہیں مُجھے
شاپنگ کو جانا دوستو مجبُوری ہے میری
اے کاش کہہ سکوں “ابھی فُرصت نہیں مُجھے“
جو کُچھ پکائے اُس کی میں تعریف بھی کروں
گرچہ کہ بُرے کھانوں سے رَغبت نہیں مُجھے
دِن رات اُس کے ناز اُٹھا کر بھی یہ سُنوں
افسوس اُس سے پہلی سی چاہت نہیں مُجھے
ہر بات پہ وہ کرتی ہے تنقید اِس طرح
اب دُشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں مُجھے
بیگم کا چمچہ بن کے مِلاؤں میں ہاں میں ہاں
سچ بولنے کی ہرگز اِجازت نہیں مُجھے
کرتے ہیں عقدِ ثانی بھلا کون خوش نصیب
دوبارہ گھوڑی چڑھنے کی حسرت نہیں مُجھے
جاؤں کسی تقریب میں اور دیکھوں غیر کو
فی الوقت خُودکشی کی حاجت نہیں مُجھے
غالب کی ہے زمین مگر ذکر سب کا ہے
سرور کا نام لینے کی عادت نہیں مُجھے