گر ہوں منصور تو سولی پہ چڑھا دے مجھ کو
Poet: خانشاہ By: Khanshah, Abbottabadگر ہوں منصور تو سولی پہ چڑھا دے مجھ کو
اور ہوں سقراط تو لا زہر پلا دے مجھ کو
وصل کا گل نہ سہی ہجر کا کانٹا ہی سہی
کچھ نہ کچھ تو مری وحشت کا صلہ دے مجھ کو
کب تلک اور جلوں آگ میں تنہائی کی
زندگی اب یہی بہتر ہے بجھا دے مجھ کو
تھرتھراتی ہوئی پلکوں پہ سجانے والے
اشک بے کار کی مانند گرا دے مجھ کو
More Marghoob Ali Poetry
کچے رنگ اتر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے کچے رنگ اتر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
سارے خواب بکھر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
ریت کا ڈھیر نظر آتے ہیں شہر کے سارے پختہ گھر
چیخوں سے دل ڈر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
تلووں میں سینے کی دھڑکن ہونٹوں پر مدت کی پیاس
جب ہم ''جان نگر'' جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
بھیگے بھیگے چاند ستارے شبنم رت نیلا آکاش
اس کے بال سنور جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
کرسی میز کتابیں؟ بستر انجانے سے تکتے ہیں
دیر سے اپنے گھر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
ٹوٹی کشتی دور کنارا ذہن میں کچھ گزرے قصے
ہم جب بیچ بھنور جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
سارے خواب بکھر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
ریت کا ڈھیر نظر آتے ہیں شہر کے سارے پختہ گھر
چیخوں سے دل ڈر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
تلووں میں سینے کی دھڑکن ہونٹوں پر مدت کی پیاس
جب ہم ''جان نگر'' جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
بھیگے بھیگے چاند ستارے شبنم رت نیلا آکاش
اس کے بال سنور جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
کرسی میز کتابیں؟ بستر انجانے سے تکتے ہیں
دیر سے اپنے گھر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
ٹوٹی کشتی دور کنارا ذہن میں کچھ گزرے قصے
ہم جب بیچ بھنور جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
Haseeb
گر ہوں منصور تو سولی پہ چڑھا دے مجھ کو گر ہوں منصور تو سولی پہ چڑھا دے مجھ کو
اور ہوں سقراط تو لا زہر پلا دے مجھ کو
وصل کا گل نہ سہی ہجر کا کانٹا ہی سہی
کچھ نہ کچھ تو مری وحشت کا صلہ دے مجھ کو
کب تلک اور جلوں آگ میں تنہائی کی
زندگی اب یہی بہتر ہے بجھا دے مجھ کو
تھرتھراتی ہوئی پلکوں پہ سجانے والے
اشک بے کار کی مانند گرا دے مجھ کو
اور ہوں سقراط تو لا زہر پلا دے مجھ کو
وصل کا گل نہ سہی ہجر کا کانٹا ہی سہی
کچھ نہ کچھ تو مری وحشت کا صلہ دے مجھ کو
کب تلک اور جلوں آگ میں تنہائی کی
زندگی اب یہی بہتر ہے بجھا دے مجھ کو
تھرتھراتی ہوئی پلکوں پہ سجانے والے
اشک بے کار کی مانند گرا دے مجھ کو
Khanshah
اڑتے ہوئے پرندوں کے شہ پر سمیٹ لوں اڑتے ہوئے پرندوں کے شہ پر سمیٹ لوں
جی چاہتا ہے شام کے منظر سمیٹ لوں
لب پر اگاؤں اس کے دھنک پھول قہقہے
آنکھوں میں اس کی پھیلا سمندر سمیٹ لوں
پہلے ملن کا پھول کھلے روح میں تری
باہوں میں تجھ کو لے کے ترے ڈر سمیٹ لوں
ممکن نہیں ہے پھر بھی میں یہ چاہتا ہوں کیوں
اخبار پر سلگتے ہوئے گھر سمیٹ لوں
چادر دوں اپنے عہد کی زینب کو اور بڑھوں
نیزوں پہ جو سجے ہیں سبھی سر سمیٹ لوں
جی چاہتا ہے شام کے منظر سمیٹ لوں
لب پر اگاؤں اس کے دھنک پھول قہقہے
آنکھوں میں اس کی پھیلا سمندر سمیٹ لوں
پہلے ملن کا پھول کھلے روح میں تری
باہوں میں تجھ کو لے کے ترے ڈر سمیٹ لوں
ممکن نہیں ہے پھر بھی میں یہ چاہتا ہوں کیوں
اخبار پر سلگتے ہوئے گھر سمیٹ لوں
چادر دوں اپنے عہد کی زینب کو اور بڑھوں
نیزوں پہ جو سجے ہیں سبھی سر سمیٹ لوں
Abdul
ہم تو گم ہو گئے حالات کے سناٹے میں ہم تو گم ہو گئے حالات کے سناٹے میں
ہم نے کچھ بھی نہ سنا رات کے سناٹے میں
حرف ناکام جہاں ہوتے ہیں ان لمحوں میں
پھول کھلتے ہیں بہت بات کے سناٹے میں
شور ہنگامہ صدا طبل و علم نقارے
ڈوب جاتے ہیں سبھی مات کے سناٹے میں
رات پڑتے ہی ہر اک روز ابھر آتی ہے
کس کے رونے کی صدا ذات کے سناٹے میں
ذہن میں پھولوں کی مانند کھلا کرتے ہیں
ہم نے وہ پل جو چنے ساتھ کے سناٹے میں
ہم نے کچھ بھی نہ سنا رات کے سناٹے میں
حرف ناکام جہاں ہوتے ہیں ان لمحوں میں
پھول کھلتے ہیں بہت بات کے سناٹے میں
شور ہنگامہ صدا طبل و علم نقارے
ڈوب جاتے ہیں سبھی مات کے سناٹے میں
رات پڑتے ہی ہر اک روز ابھر آتی ہے
کس کے رونے کی صدا ذات کے سناٹے میں
ذہن میں پھولوں کی مانند کھلا کرتے ہیں
ہم نے وہ پل جو چنے ساتھ کے سناٹے میں
usman






