خاموش کیوں تیرے دل کی صدا ہے گرداب کی ناؤ موجوں پر فدا ہے اُٹھتا نہیں سر درِ اغیار سے تب تیری یہ غلامی کی ہی اک ادا ہے پیتے نہیں سچ کی مے بت خانے میں جو اِس قوم کا خاکم ہی اِس کی سزا ہے