گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے
Poet: عباس رضوی By: Zaid, Islamabad
گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے
سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گئے
اسی نظر کے لئے بے قرار رہتے تھے
اسی نگاہ کی بے تابیوں سے ڈر بھی گئے
ہماری راہ میں سایہ کہیں نہیں تھا مگر
کسی شجر نے پکارا تو ہم ٹھہر بھی گئے
یہ سیل اشک ہے برباد کر کے چھوڑے گا
یہ گھر نہ پاؤ گے دریا اگر اتر بھی گئے
سحر ہوئی تو یہ عقدہ بھی طائروں پہ کھلا
کہ آشیاں ہی نہیں اب کے بال و پر بھی گئے
بہت عزیز تھی یہ زندگی مگر ہم لوگ
کبھی کبھی تو کسی آرزو میں مر بھی گئے
شجر کے ساتھ کوئی برگ زرد بھی نہ رہا
ہوا چلی تو بہاروں کے نوحہ گر بھی گئے
More Abbas Rizvi Poetry
میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا
وہ ایک شعلے کی صورت مرے نفس میں رہا
نظر اسیر اسی چشم مے فشاں کی رہی
مرا بدن بھی مری روح کے قفس میں رہا
چمن سے ٹوٹ گیا برگ زرد کا رشتہ
نہ آب و گل میں سمایا نہ خار و خس میں رہا
تمام عمر کی بے تابیوں کا حاصل تھا
وہ ایک لمحہ جو صدیوں کے پیش و پس میں رہا
وہ ایک شاعر آشفتہ سر کہ مجھ میں تھا
ہوا کا ساتھ نہ دے کر ہوا کے بس میں رہا
کسی خیال کے نشے میں دن گزرتے رہے
میں اپنی عمر کے انیسویں برس میں رہا
وہ ایک شعلے کی صورت مرے نفس میں رہا
نظر اسیر اسی چشم مے فشاں کی رہی
مرا بدن بھی مری روح کے قفس میں رہا
چمن سے ٹوٹ گیا برگ زرد کا رشتہ
نہ آب و گل میں سمایا نہ خار و خس میں رہا
تمام عمر کی بے تابیوں کا حاصل تھا
وہ ایک لمحہ جو صدیوں کے پیش و پس میں رہا
وہ ایک شاعر آشفتہ سر کہ مجھ میں تھا
ہوا کا ساتھ نہ دے کر ہوا کے بس میں رہا
کسی خیال کے نشے میں دن گزرتے رہے
میں اپنی عمر کے انیسویں برس میں رہا
Ghani
ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں
ایسے مفلس ہیں کہ اسباب سے ڈر جاتے ہیں
خوف ایسا ہے کہ دنیا کے ستائے ہوئے لوگ
کبھی منبر کبھی محراب سے ڈر جاتے ہیں
رات کے پچھلے پہر نیند میں چلتے ہوئے لوگ
خون ہوتے ہوئے مہتاب سے ڈر جاتے ہیں
شاد رہتے ہیں اسی جامۂ عریانی میں
ہاں مگر اطلس و کمخواب سے ڈر جاتے ہیں
کبھی کرتے ہیں مبارز طلبی دنیا سے
اور کبھی خواہش بے تاب سے ڈر جاتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ چلئے اسی کوچے کی طرف
ہم تری بزم کے آداب سے ڈر جاتے ہیں
ہم تو وہ ہیں کہ جنہیں راس نہیں کوئی نگر
کبھی ساحل کبھی گرداب سے ڈر جاتے ہیں
ایسے مفلس ہیں کہ اسباب سے ڈر جاتے ہیں
خوف ایسا ہے کہ دنیا کے ستائے ہوئے لوگ
کبھی منبر کبھی محراب سے ڈر جاتے ہیں
رات کے پچھلے پہر نیند میں چلتے ہوئے لوگ
خون ہوتے ہوئے مہتاب سے ڈر جاتے ہیں
شاد رہتے ہیں اسی جامۂ عریانی میں
ہاں مگر اطلس و کمخواب سے ڈر جاتے ہیں
کبھی کرتے ہیں مبارز طلبی دنیا سے
اور کبھی خواہش بے تاب سے ڈر جاتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ چلئے اسی کوچے کی طرف
ہم تری بزم کے آداب سے ڈر جاتے ہیں
ہم تو وہ ہیں کہ جنہیں راس نہیں کوئی نگر
کبھی ساحل کبھی گرداب سے ڈر جاتے ہیں
Faizan
گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے
سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گئے
اسی نظر کے لئے بے قرار رہتے تھے
اسی نگاہ کی بے تابیوں سے ڈر بھی گئے
ہماری راہ میں سایہ کہیں نہیں تھا مگر
کسی شجر نے پکارا تو ہم ٹھہر بھی گئے
یہ سیل اشک ہے برباد کر کے چھوڑے گا
یہ گھر نہ پاؤ گے دریا اگر اتر بھی گئے
سحر ہوئی تو یہ عقدہ بھی طائروں پہ کھلا
کہ آشیاں ہی نہیں اب کے بال و پر بھی گئے
بہت عزیز تھی یہ زندگی مگر ہم لوگ
کبھی کبھی تو کسی آرزو میں مر بھی گئے
شجر کے ساتھ کوئی برگ زرد بھی نہ رہا
ہوا چلی تو بہاروں کے نوحہ گر بھی گئے
سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گئے
اسی نظر کے لئے بے قرار رہتے تھے
اسی نگاہ کی بے تابیوں سے ڈر بھی گئے
ہماری راہ میں سایہ کہیں نہیں تھا مگر
کسی شجر نے پکارا تو ہم ٹھہر بھی گئے
یہ سیل اشک ہے برباد کر کے چھوڑے گا
یہ گھر نہ پاؤ گے دریا اگر اتر بھی گئے
سحر ہوئی تو یہ عقدہ بھی طائروں پہ کھلا
کہ آشیاں ہی نہیں اب کے بال و پر بھی گئے
بہت عزیز تھی یہ زندگی مگر ہم لوگ
کبھی کبھی تو کسی آرزو میں مر بھی گئے
شجر کے ساتھ کوئی برگ زرد بھی نہ رہا
ہوا چلی تو بہاروں کے نوحہ گر بھی گئے
Zaid






