میری حیات کے سارے عذاب اس کے ہیں
ہے نیند میری مگر سارے خواب اس کے ہیں
جہاں رہوں میں پناھوں میں اس کی رہتا ھوں
زمین ابر فلک افتاب اس کے ہیں
وہ کچھ نہ دینے پہ نادم ہے آج تک مجھ کو
میں خوش ھوں مجھ پہ کرم بے حساب اس کے ہیں
جو بچ گئے انھیں نسبت نہیں کوئی اس سے
جو لٹ گئے ہیں وہ خانہ خراب اس کے ہیں
ہے شاخ شاخ میں شامل اگرچہ خون میرا
تمام خار میرے گلاب اس کے ہیں