گلاب جازب حسن تابناک صراحی
مستی میلہ میں مگن عدن زن و راہی
دلفریب ہیں بہت محفل رقص و سرور
بے حجاب بدن مثل بے آب ماہی
میراث فقیری میں نہیں غسل ابن درویش
جشن نوروز میں نہلاتی عرق گلاب سے پادشاہی
حمد کی ادراک ہی میں تو ہے ربائی
لاالہ الا لله ہی تو ہے اصل گواہی
نور اسم پاک کی ایک کرن کا طالب ہوں
جلوہ ہے تیرا گر خاک پا ہو جاؤں ہمراہی
اس راز پوشیدگی میں کیا نکتہ کمال ہے
تیری امانت کو سنبھالا کئے ایک ماہی
میرا نفس آئینہ دکھائے میرا ہی عکس مجھے
دے میرے قلب کو ہیرے سی جراحی
نہ دیکھ رعونت بھرے فلک پوش پہاڑ
پھٹ جائیں تو اگل دیں تباہی
نہیں رکھتا اشتیاق پوشاک اجماعی
درویشوں کی تو ردا ہی میں ہے شاہی