گلستان میں رنگ برنگ تتلیوں کی قطاریں کیسی
وطن میں نئے نئے پیرھن پہنے یہ صورتیں کیسی
غربت سے تنگ افلاس زدہ چہروں پہ پژمردگی طاری
اب پاک وطن میں عیش وسرور کی محفلیں کیسی
تمیں کیا بتائیں کہ ھم ھیں چراغ آخری شب
تو پھر ھوا کے دوش پر یہ یہ آندھیاں کیسی
ھم ھی نے دیاھے پیران حرم کوعیش ونشاط کا تحفہ
پھر وطن عزیز کے لاچار باسیوں کی شکائتیں کیسی
امیروں کے گھروں کے چراغ غریبوں کے لہو سے جلتےھیں
پھر مزدوروں کی مالکوں سے بغاوتیں کیسی
تمہارے ظلم و ستم کے تیر کب سے یہ جگر چیر چکے
پھر ھمارے زخموں پہ مرھم رکھنے کی یہ عنائتیں کیسی
روٹی کپڑا اور مکان تو چھین لیا ظالموں نے
پھر زلزلوں اور سیلابوں کی ٹوٹ رھی ھیں قیامتیں کیسی
مرا ھےمرد نادار و ناچار جن کے ھاتھوں سے
انھی کی طرف سے تکفین و تدفین پر یہ نمائشیں کیسی
حسن اس کی رفاقت تھی تو ھر کوئی مھرباں ٹہرا
اب بچھڑ گیا ھے تو پڑی ھیں یہ مصیبتیں کیسی