گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم
Poet: Wajeeh Sani By: parveen, khi
گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم
ارے ثانیؔ کہاں گھر آ گئے تم
کہانی ختم ہونے جا رہی تھی
نیا اک موڑ لے کر آ گئے تم
ہنسی میں ٹالنے ہی جا رہا تھا
مری آنکھوں میں کیوں بھر آ گئے تم
زمانہ تاک میں بیٹھا ہوا تھا
زمانے بھر سے بچ کر آ گئے تم
میں جی لوں گا اسی اک پل میں جیون
کہ جس پل میں میسر آ گئے تم
مرے سینے پہ اپنا بوجھ رکھنا
اگر بانہوں میں تھک کر آ گئے تم
دعا میں ہاتھ تھکتے جا رہے تھے
ابھی گرتے کہ یکسر آ گئے تم
ہمارا ظرف تھا سو چپ رہے ہم
مگر آپے سے باہر آ گئے تم
بسا اوقات تم کو بھول رکھا
مگر یادوں میں اکثر آ گئے تم
ابھی تم سے ہی ملنے آ رہا تھا
چلو اچھا ہوا گر آ گئے تم
محبت کی وکالت کر رہے ہو
تو کیا ثانیؔ سے مل کر آ گئے تم
More Wajeeh Sani Poetry
گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم
ارے ثانیؔ کہاں گھر آ گئے تم
کہانی ختم ہونے جا رہی تھی
نیا اک موڑ لے کر آ گئے تم
ہنسی میں ٹالنے ہی جا رہا تھا
مری آنکھوں میں کیوں بھر آ گئے تم
زمانہ تاک میں بیٹھا ہوا تھا
زمانے بھر سے بچ کر آ گئے تم
میں جی لوں گا اسی اک پل میں جیون
کہ جس پل میں میسر آ گئے تم
مرے سینے پہ اپنا بوجھ رکھنا
اگر بانہوں میں تھک کر آ گئے تم
دعا میں ہاتھ تھکتے جا رہے تھے
ابھی گرتے کہ یکسر آ گئے تم
ہمارا ظرف تھا سو چپ رہے ہم
مگر آپے سے باہر آ گئے تم
بسا اوقات تم کو بھول رکھا
مگر یادوں میں اکثر آ گئے تم
ابھی تم سے ہی ملنے آ رہا تھا
چلو اچھا ہوا گر آ گئے تم
محبت کی وکالت کر رہے ہو
تو کیا ثانیؔ سے مل کر آ گئے تم
ارے ثانیؔ کہاں گھر آ گئے تم
کہانی ختم ہونے جا رہی تھی
نیا اک موڑ لے کر آ گئے تم
ہنسی میں ٹالنے ہی جا رہا تھا
مری آنکھوں میں کیوں بھر آ گئے تم
زمانہ تاک میں بیٹھا ہوا تھا
زمانے بھر سے بچ کر آ گئے تم
میں جی لوں گا اسی اک پل میں جیون
کہ جس پل میں میسر آ گئے تم
مرے سینے پہ اپنا بوجھ رکھنا
اگر بانہوں میں تھک کر آ گئے تم
دعا میں ہاتھ تھکتے جا رہے تھے
ابھی گرتے کہ یکسر آ گئے تم
ہمارا ظرف تھا سو چپ رہے ہم
مگر آپے سے باہر آ گئے تم
بسا اوقات تم کو بھول رکھا
مگر یادوں میں اکثر آ گئے تم
ابھی تم سے ہی ملنے آ رہا تھا
چلو اچھا ہوا گر آ گئے تم
محبت کی وکالت کر رہے ہو
تو کیا ثانیؔ سے مل کر آ گئے تم
parveen
اچھا ہوا کہ عشق میں برباد ہو گئے اچھا ہوا کہ عشق میں برباد ہو گئے
مجبوریوں کی قید سے آزاد ہو گئے
کب تک فریب کھاتے رہیں قید میں رہیں
یہ سوچ کر اسیر سے صیاد ہو گئے
اس کیفیت کا نام ہے کیا سوچتے ہیں ہم
اور دوستوں کی ضد ہے کہ فرہاد ہو گئے
ملنے کا من نہیں تو بہانا نیا تراش
اب تو مکالمے بھی ترے یاد ہو گئے
بیزار بد مزاج انا دار بد لحاظ
ایسے نہیں تھے جیسے تیرے بعد ہو گئے
ثانیؔ فقط تمہارا لکھا جن خطوط پر
وہ تو کبھی کے زائد المیعاد ہو گئے
مجبوریوں کی قید سے آزاد ہو گئے
کب تک فریب کھاتے رہیں قید میں رہیں
یہ سوچ کر اسیر سے صیاد ہو گئے
اس کیفیت کا نام ہے کیا سوچتے ہیں ہم
اور دوستوں کی ضد ہے کہ فرہاد ہو گئے
ملنے کا من نہیں تو بہانا نیا تراش
اب تو مکالمے بھی ترے یاد ہو گئے
بیزار بد مزاج انا دار بد لحاظ
ایسے نہیں تھے جیسے تیرے بعد ہو گئے
ثانیؔ فقط تمہارا لکھا جن خطوط پر
وہ تو کبھی کے زائد المیعاد ہو گئے
junaid






