یوں پیٹ میں مروڑ اٹھے اضطراب میں
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
تیراکی اگر سیکھ لیتی مہینوال سے
سوہنی کبھی نہ ڈوبتی موج چناب میں
ہر روز کسی موڑ پہ ہوتی ہے ملاقات
ہر روز نئی آتی ہے ہڈی کباب میں
دیکھے سیاہ بال جو میرے رقیب نے
گنجے نے پورا گنج ڈبویا خضاب میں
تو نے تو کہا تھا کہ کوئی خرچ نہ ہو گا
یہ سالیوں کی شاپنگیں ہیں کس حساب میں