گو آشنا قلم کے تھے حسن بیاں سے ہم
آگے بڑھے نہ قصہ ء عشق بتاں سے ہم
لفظوں کےپیچ وخم نے ہی الجھاکررکھدیا
کچھ بھی نہ کہہ سکےکبھی اپنی زباںسےہم
گو حوصلے تھے زاد سفر ذی حیات میں
ہارے ہیںدل کے بڑھتے مگرخوش گماں سےہم
آ نسو ہیں یا لہو ہے تبسم کی آ ڑ میں
کیوں لگ رہےہیں اپنےہی اب رازداں سے ہم
منزل کاہر نشاں ہی دھند میں ہےکھو گیا
شاید بچھڑ گئے ہیں یونہی کارواں سے ہم
خودسے چھپاکے لکھی ہے اک داستان غم
کرتےہیں عشق یوں بیاں سارےجہاںسےہم
خودہی بھڑک کےخرمن نفرت کوپھونک دیں
ایسے چراغ ڈھونڈ کر لائیں کہاں سے ہم
ایسا نہ ہو کہ وقت وہ آ جائے لو ٹ کر
رہ جائیں اک بار پھر بے نشاں سے ہم