کیوں حیرت سے تکتی ہے ایک اک چہرے کو
کیا تجھ کو شکوہ ہے تیری گویائی کی طاقت
چھین کے قدرت نے بے انصافی کی ہے؟
کیا تجھ کو احساس ہے تیرے پاس اگر گفتار کی نعمت ہوتی
تو اس چاروں جانب پھیلی ہتھیاروں کی دنیا
سینہ دہلا دینے والے طیاروں کی انساں کش آوازیں
آوازیں جن میں انساں کی روح شبانہ روز دبی جاتی ہے
محشر خیز آوازیں کل پرزوں کی جن سے نفسی نفسی کا عالم پیدا ہو کر
دن پر دن عفریت کی صورت میں بڑھتا جاتا ہے
ان آوازوں کی ہیبت ناکی پر واویلا کرتی
تو آواز اٹھاتی اس فاشی اور تعصب پھیلانے والے عنصر کو بڑھتا پا کر
جو حب الوطنی کے نام پہ انساں کش ہوتا جاتا ہے
تو ان رجحانات کی خوب مذمت کرتی
ان سے لڑتی جو اس دنیا کو پیچھے لے جانے میں کوشاں ہیں
'مذہب اور تہذیب'
'ثقافت' اور 'ترقی' کہہ کر رجعت پرور ہو جاتے ہیں
لے میں تجھ کو اپنی گویائی دیتا ہوں!
یہ میرے کام نہیں آئی کچھ
میں ایسا بزدل ہوں جو ہر بے انصافی کو چپکے چپکے سہتا ہے
جس نے 'مقتل' اور 'قاتل' دونوں دیکھے ہیں
لیکن دانائی کہہ کر
اپنی گویائی کو گونگا کر رکھا ہے!