گھمانا میں ہر ایک لاء چاہتا ہوں
پولس کے محکمے میں جا چاہتا ہوں
حسینہ کہ گونگی ہو اور مال والی
" مری سادگی دیکھ ، کیا چاہتا ہوں "
تعلق ہے میرا ہزاروں سے لیکن
مگر یار کو پارسا چاہتا ہوں
مسلماں ہوں اور چار کا حق ہے مجھ کو
میں اک زن پہ کب اکتفا چاہتا ہوں
سیاست میں آیا ہوں کھانے کی خاطر
لگایا جو اس کا صلہ چاہتا ہوں
نہ مل پائی " ٭خانم " سو "مِیرا " عطا ہو ٭صبیحہ خانم
میں کیا چاہتا تھا، میں کیا چاہتا ہوں
نہیں مجھ کو پچتا ہے گھی اور کوئی
میں کھانے میں بس " ڈالڈا " چاہتا ہوں
میں خود کو بدلنے پہ تیار کب ہوں؟
زمانہ مگر میں نیا چاہتا ہوں
غزل فیس بک پر مکمل تو کر لوں
ذرا صبر بیگم! اٹھا چاہتا ہوں