گہے شعلہ گہے شبنم ، نمی دانم نمی دانم
مزاجِ کاکلِ برہم ، نمی دانم نمی دانم
خودی کا راز پا کر ہو گیا ہوں خود سے ناواقف
چہ من ہستم چہ من بودم ، نمی دانم نمی دانم
یہ سینہ ہو گیا ہے اس قدر مخمور تیروں سے
کہاں گھاؤ ، کہاں مرہم ، نمی دانم نمی دانم
مجھے لڑنا ہے خود سے آخری سانسوں کی مہلت تک
رہے گا کب تلک دم خم ، نمی دانم نمی دانم
بلاتی ہے کوئی پائل کہ ہے زنجیر کا نالہ
یہ جو آواز ہے چھم چھم ، نمی دانم نمی دانم
بچھا ہے چار سُو صدیوں کا رستہ تیرگی بن کر
کدھر پورب ، کدھر پچھم ، نمی دانم نمی دانم
نکھرتا ہے بروں جس سے، سنورتا ہے دروں جس سے
سبو ہے یا کوئی زمزم ، نمی دانم نمی دانم
امـؔر ہم تم ، زمین و آسماں ، دریا کے دو ساحل
ملیں گے حشر میں باہم ، نمی دانم نمی دانم