ہائے جانانہ کی مہماں داریاں
اور مجھ دل کی بدن آزاریاں
ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر
تیری قتالہ سرینی بھاریاں
اف شکن ہائے شکم جانم تری
کیا کٹاریں ہیں کٹاریں کاریاں
ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ
پھر تیری مجبوریاں ناچاریاں
تشنہ لب ہے کب سے دل سا شیر خوار
تیرے دودھوں سے ہیں چشمے جاریاں
دکھ غرور حشر کے جانا ہے کون
کس نے سمجھی حشر کی دشواریاں
اپنے درباں کو سنبھالے رکھئے
ہیں ہوس کی اپنی عزت داریاں
ہیں سدھاری کون سے شہروں طرف
لڑکیاں وہ دل گلی کی ساریاں
خواب جو تعبیر کے بس کے نہ تھے
دوستوں نے ان پہ جانیں واریاں
خلوت مضراب ساز و ناز میں
چاہیے ہم کو تیری سسکاریاں
لفظ و معانی کا بہم کیوں ہے سخن
کس زمانے میں تھیں ان میں یاریاں
شوق کا اک داؤ بے شوقی بھی ہے
ہم ہیں اس کے حسن کے انکاریاں
مجھ سے بد طوری نہ کر او شہر یار
میرے جوتوں کے ہے تلوے خاریاں
کھا گئیں اس ظالم و مظلوم کو
میری مظلومی نما عیاریاں
یہ حرامی ہیں غریبوں کے رقیب
ہیں ملازم سب کے سب سرکاریاں
وہ جو ہیں جیتے انہوں نے بے طرح
جیتنے پر ہمتیں ہیں ہاریاں
تم سے جو کچھ بھی نہ کہہ پائیں میاں
آخرش کرتی وہ کیا بے چاریاں