پتلے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہیں
اور لوگ سڑکوں پہ آئے ہوئے ہیں
کیا بتائیں کیا حالت ہے ہماری
بہت بجلی سے ستائے ہوئے ہیں
رات نماز پڑھنے کو جو اٹھتے نہ تھے
بوڑھے بچے سب جگائے ہوئے ہیں
غزل کی دو لائنیں لکھنے کو
ہم نے جنریٹر چلائے ہوئے ہیں
گھر جانے کو اب جی نہیں کرتا
بل جو بجلی کے آئے ہوئے ہیں
چوری کیے تھے جو ناظم نے یونٹ
بل پہ میرے وہ پائے ہوئے ہیں
عثمان قیامت سے پہلے اک قیامت
یہ واپڈا والے جو لائے ہوئے ہیں