“ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں“
قلب کا تھا جو عارضہ آپ نے پائے کھائے کیوں
بکتے ہیں جا بجا وہاں حلوہ ‘ ہریسہ و حلیم
“ جس کو ہوں جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں“
بڑھ جو گیا کولیسٹرول کرنا تھا اس کو کنٹرول
عید پہ کھائ آپ نے مرغ کی جا پہ گائے کیوں
گولی یہ ہارٹ اٹیک کی رکھنی تھی نیچے جیبھ کے
آپ بغیر بوچھے ہی اس کو زباں پہ لائے کیوں
دوں گا دوا بخار کی ‘ پہلے مگر بتاؤ تو
رات کو سردیوں میں تم در آب یخ نہائے کیوں
پی کے شراب چوک میں کرتے رہے ہو ہاؤ ہو
اب جو ہو دھر لئےگئے کرتے ہو ہائے ہائے کیوں