ہاں موسمِ بہار بھی باقی نہیں رہا
ہاں تیرا انتظار بھی باقی نہیں رہا
جذبوں کی وہ تپش ہی دلوں میں نہیں رہی
چہروں کا وہ نکھار بھی باقی نہیں رہا
بارود ، آگ ، خون کی برسات ، الاماں
اب حسنِ کوہسار بھی باقی نہیں رہا
جو بھی ملا ، اُسی سے مراسم بڑھا لئے
اس دل کا اعتبار بھی باقی نہیں رہا
کچھ تو سنبھل گیا ہے دلِ نامراد بھی
رنگِ جمالِ یار بھی باقی نہیں رہا
انور مری سرشت ہے کم گوئی اور کچھ
لفظوں پہ اختیار بھی باقی نہیں رہا