ہاۓ کتنا برا دسمبر ہے
مجھ سے پھر آ ملا دسمبر ہے
یہ بھی دکھ دے کے مجھ کو جاۓ گا
جیسے پچھلا گیا دسمبر ہے
جان چھوٹی جو بارشوں سے تو
آ گلے میں پڑا دسمبر ہے
عاشقوں کو جلانے کو پھر سے
آیا کیوں اے خدا دسمبر ہے
سوچا جب تیری کیوں کمی سی ہے
پھر پتا یہ چلا دسمبر ہے
جب سے تو چھوڑ کر گیا مجھ کو
تب سے مجھ سے خفا دسمبر ہے
مجھ کو تنہائ مار دے نہ کہیں
یار تو لوٹ آ دسمبر ہے
تیری یادوں کی گرم سانسوں سے
آج کتنا لڑا دسمبر ہے
چھوڑ باقرؔ تو دنیا داری کو
یار کو جا منا دسمبر ہے