ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے
ہجر میں کرنا ہے کیا؟ یہ تو بتاتے جایئے
جاتے جاتے آپ اِتنا کام تو کیجے مرا
یاد کا سارا سروساماں جلاتے جایئے
رہ گئی امّید تو برباد یو جاؤں گا میں
جایئے تو پھر مجھے سچ مچ بھلاتے جایئے
وہ گلی ہے اک شرابی چشم کافر کی گلی
اُس گلی میں جایئے تو لڑکھڑاتے جایئے
آپ کو جب مجھ سے شکوہ ہی نہیں کوئی، تو پھر
آگ ہی دل میں لگانی ہے؟ لگاتے جایئے
آپ کا مہمان ہوں میں، آپ میرے میزبان
سو مجھے زہرِ مروّت تو پلاتے جایئے
ہے سرِ شب اور مرے گھر میں نہیں کوئی چراغ
آگ تو اِس گھر میں جانانہ لگاتے جایئے