ہجرت نے یوں کیا ہے مجھے میری ماں سے دور
یوں لگ رہا ہے جیسے ہوں میں جسم و جاں سے دور
روح و بدن کا رشتہ مکین و مکاں کا ہے
مطلب ہے موت کا کہ مکیں ہے مکاں سے دور
بانہیں چھڑا کے جب وہ گیا میرے پاس سے
مجھ کو لگا کہ میں ہوا دار الاماں سے دور
جاؤ کہیں بھی موت تمہیں آئے گی ضرور
جانا ہے ایک روز سبھی کو یہاں سے دور
الفاظ بھی ہیں تیر زباں بھی ہے اک کماں
بے سوچے سمجھے تیر نہ کرنا کماں سے دور
پت جھڑ میں جس شجر سے وہ گزرا تو یوں ہوا
آئی بہار ہو گئے پتے خزاں سے دور
کاشفؔ بہت ہی سوچ کے ہم نے کیا ہے عشق
سود و زیاں سے دور تمہارے جہاں سے دور