ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے

Poet: شاہ زیب By: شاہ زیب, Mansehra

ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے

جینا ہے گر عزیز تو مرنا بھی سیکھئے
یہ کیا کہ ڈوب کر ہی ملے ساحل نجات

سیلاب خوں سے پار اترنا بھی سیکھئے
ایسا نہ ہو کہ خواب ہی رہ جائے زندگی

جو دل میں ٹھانئے اسے کرنا بھی سیکھئے
بگڑے بہت کشاکش ناز و نیاز میں

اب اس کی انجمن میں سنورنا بھی سیکھئے
ہوتا ہے پستیوں کے مقدر میں بھی عروج

اک موج تہ نشیں کا ابھرنا بھی سیکھئے
اوروں کی سرد مہری کا شکوہ بجا سحرؔ

خود اپنے دل کو پیار سے بھرنا بھی سیکھئے

Rate it:
Views: 116
24 Jul, 2025