اس خون کی ہر بوند میں کلمے کی صدا ہے
یہ عشق کائنات نے دیکھا نہیں کبھی
بکھرے پڑے تھے ریت پہ موتی رسول کے
منظر یہ پھر فرات نے دیکھا نہیں کبھی
جو روپ چڑھا ہے علی اکبر کی شان پر
وہ روپ پھر حیات نے دیکھا نہیں کبھی
لمحہ گزر گیا جو پیغمبر کی آل پر
پھر گردش حالات نے دیکھا نہیں کبھی
لکھوں تو کیا لکھوں کہ قلم کانپ رہا ہے
وہ غم ہے کہ خود سینہ ء غم کانپ رہا ہے
ہر عشق کی معراج ہے مہمان کربلا
ہر دور میں زندہ ہیں شہیدان کربلا