ہر سِتم ایک دَم دِسمبر میں
جَم سے جاتے ہیں غم دِسمبر میں
سال بھر اِس لیے میں رویا ہُوں
دِل بھرے کم سے کم دِسمبر میں
یادیں چھٹی منانے آئیں تھیں
گھر سے نکلے نہ ہم دِسمبر میں
ہر شجر پر خَزاں نے گاڑ دِیا
ایک اُجڑا عَلَم دِسمبر میں
برف کی کرچیاں ہیں پلکوں پر
آہ! یہ چشمِ نم دِسمبر میں
دیکھ کر مارا مارا چڑیا کو
شاخ تھی قدرے خم دِسمبر میں
لمبی راتوں کا فیض ہے شاید
ضم ہُوئے غم میں غم دِسمبر میں
جوہرِ اَشک سے بغیر اَلفاظ
ڈائری کی رَقم دِسمبر میں
برف نے رَفتہ رَفتہ ڈھانپ دِئیے
تین سو دَس قدم دِسمبر میں
ریڑھ کی ہڈی تک اُتر آئے
سرد مہری ، اَلم دِسمبر میں
لیلیٰ سے بڑھ کے موت اَچھی لگی
قیس رَب کی قسم دِسمبر میں