ہر شے میں ہے تغیر جو ہر پل جدا ملے
جلتا ہوا چراغ بھی پل میں بجھا ملے
پل میں کہیں بہار تو پل میں خزاں ملے
پل میں ہوا کا رخ بھی بدلتا ہوا ملے
پل میں کہیں خوشی ہو تو ماتم بھی ہو کہیں
پل میں ملے فراخی تو پل میں لٹا ملے
پل میں کوئی ہو شاہ تو محکوم ہو کوئی
کوئی ملے امیر تو پل میں گدا ملے
مغرور ہو کوئی یا ستمگر بھی ہو کوئی
پل میں کسی کا ہوش تو اڑتا ہوا ملے
ہے آرزو طویل پر پل کی خبر نہیں
تکیہ ہو کیوں کسی پر جو پل میں فنا ملے
ٹوٹے نہ دل کسی کا وہ ہر دم کِھلا ملے
اٌس آئینہ کی قدر تو ہر پل سِوا ملے
ہے اثر کی تمنا کہ دل اس کا یوں رہے
بس خیر کے امور میں ہر پل لگا ملے