ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
Poet: Himayat Ali Shayar By: fabeeha, khi
ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
کتنے سادہ دل ہیں اب بھی سن کے آواز جرس
پیش و پس سے بے خبر گھر سے نکل جاتے ہیں لوگ
اپنے سائے سائے سرنہوڑائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ
شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
More Himayat Ali Shayar Poetry
میں سو رہا تھا اور کوئی بیدار مجھ میں تھا میں سو رہا تھا اور کوئی بیدار مجھ میں تھا
شاید ابھی تلک مرا پندار مجھ میں تھا
وہ کج ادا سہی مری پہچان بھی تھا وہ
اپنے نشے میں مست جو فن کار مجھ میں تھا
میں خود کو بھولتا بھی تو کس طرح بھولتا
اک شخص تھا کہ آئنہ بردار مجھ میں تھا
شاید اسی سبب سے توازن سا مجھ میں ہے
اک محتسب لئے ہوئے تلوار مجھ میں تھا
اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے
تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا
شاید ابھی تلک مرا پندار مجھ میں تھا
وہ کج ادا سہی مری پہچان بھی تھا وہ
اپنے نشے میں مست جو فن کار مجھ میں تھا
میں خود کو بھولتا بھی تو کس طرح بھولتا
اک شخص تھا کہ آئنہ بردار مجھ میں تھا
شاید اسی سبب سے توازن سا مجھ میں ہے
اک محتسب لئے ہوئے تلوار مجھ میں تھا
اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے
تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا
junaid
ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
کتنے سادہ دل ہیں اب بھی سن کے آواز جرس
پیش و پس سے بے خبر گھر سے نکل جاتے ہیں لوگ
اپنے سائے سائے سرنہوڑائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ
شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
کتنے سادہ دل ہیں اب بھی سن کے آواز جرس
پیش و پس سے بے خبر گھر سے نکل جاتے ہیں لوگ
اپنے سائے سائے سرنہوڑائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ
شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
fabeeha






