کسی غریب کو ہر پل تیرا انتظار رہتا ہے
آنکھوں سےآنسوؤں کا سمندر بہتا رہتا ہے
دن رات تیری یاد میں رو رو کر
وہ اشکوں سے بالٹیاں بھرتا رہتا ہے
تو کیا جانے تجھے بھلانےکی خاطر
وہ سارے محلے کو تنگ کرتا رہتا ہے
تھک جاتا ہے جب پڑوسیوں سے لڑتے لڑتے
پھراپنے آپ سے ہی لڑتا رہتا ہے
اب تو کوئی اصغر سے بات نہیں کرتا
بیچارہ دیواروں سے باتیں کرتا رہتا ہے