ہرے درختوں میں آگ مضمر ہے
ذرے ذرے میں طوفان ہے برپا
دن رات پہ لپٹا ہوا ہے
گردش_ جہان ہے برپا
لذت_ شوق جس نے بھی پالی
اس کے دل میں ھیجان ہے برپا
آرزو ہے کہ پار لگ جائیں
زندگی! نوح کا طوفان ہے برپا
فتنہٴ دجال پھیل رہا ہے
خطرہٴ ایمان ہے برپا
نزول عیسی ابن_ مریم ہے
مہدیٴ حق کا اعلان ہے برپا
صور_ اسرافیل کی آواز آ رہی ہے
حشر کا میدان ہے برپا
میزان_ رب قائم ہو چکی
جزا اور سزا کا نظام ہے برپا
کہیں خوف کہیں اطمینان ہے
شکست کہیں فتح_ ایمان ہے برپا