ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں
ایسے مفلس ہیں کہ اسباب سے ڈر جاتے ہیں
خوف ایسا ہے کہ دنیا کے ستائے ہوئے لوگ
کبھی منبر کبھی محراب سے ڈر جاتے ہیں
رات کے پچھلے پہر نیند میں چلتے ہوئے لوگ
خون ہوتے ہوئے مہتاب سے ڈر جاتے ہیں
شاد رہتے ہیں اسی جامۂ عریانی میں
ہاں مگر اطلس و کمخواب سے ڈر جاتے ہیں
کبھی کرتے ہیں مبارز طلبی دنیا سے
اور کبھی خواہش بے تاب سے ڈر جاتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ چلئے اسی کوچے کی طرف
ہم تری بزم کے آداب سے ڈر جاتے ہیں
ہم تو وہ ہیں کہ جنہیں راس نہیں کوئی نگر
کبھی ساحل کبھی گرداب سے ڈر جاتے ہیں