ہم تماشا بن گئے اس کو دکھا کچھ بھی نہیں
زندگی بھر کی وفا لیکن ملا کچھ بھی نہیں
ہم وفا کرتے رہے اک بے وفا کے واسطے
جنکی نظروں میں سنا ہےکہ وفا کچھ بھی نہیں
سجدوںمیں چاہاکبھی مانگادعاؤں میں کبھی
ملتجی دل میں رہے لب سے کہا کچھ بھی نہیں
آنسوؤں سے سارا کاغذ کردیا تھا تر بہ تر
ہم نے اسکو آخری خط میِں لکھاکچھ بھی نہیں
خود فراموشی کسی کی اسقدر اچھی نہیں
میری بربادی پہ بولے کیا ہوا کچھ بھی نہیں
راس آتی ہی نہیں ہم کو لکیریں بخت کی
ویسے اپنی زندگی میں کیا رکھا کچھ بھی نہیں
داستان عشق بھی ہم کیا بیاں کرتے غزل
ابتداء کی کیا کہیں جب انتہا کچھ بھی نہیں