ہم جگنو تھے ،ہم تتلی تھے
ہم رنگ برنگے پنچھی تھے
کچھ ماہ وسال کی جنت میں
ماں! ہم دونوں بھی سانجھی تھے
میں چھوٹا سا اک بچہ تھا
تیری انگلی تھام کے چلتا تھا
تو دور نظر سے ہوتی تھی
میں آنسو آنسو روتا تھا
اک خوابوں کا روشن بستہ
تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتا تھا میں راتوں کو
تو اپنے ساتھ سلاتی تھی
ماں! تو نے کتنے برسوں تک
اس پھول کو سینچا ہاتھوں سے
جیون کے گہرے بھیدوں کو
میں سمجھا تیری باتوں سے
میں تیرے ہاتھ کے تکیے پر
اب بھی راتوں کو سوتا ہوں
ماں! میں چھوٹا سا اک بچہ
تیری یاد میں اب بھی روتا ہوں