ہم زندہ ہیں مُردوں کی طرح
ہم بے بس ہیں جانوروں کی طرح
ہم مقروض ہیں پہلے کی طرح
ہم مانگتے ہیں شاہوں کی طرح
ہم کرتے کراتے کچھ بھی نہیں
مست رہتے ہیں لاکھوں کی طرح
دنیا ہے صرف چند دنوں کا مسکن
ہم رہتے ہیں یہاں مہمانوں کی طرح
لاکھوں سے پھر بھی ہم بہتر ہے
ہم ناخواندہ ہے خوندوں کی طرح
قوم کی بیٹیاں لکھ پڑھ گئیں سب
بیٹے رہ گئے ھائے جاہلوں کی طرح
کب ان کو غیرت آئے گی
فریاد کرو موسٰی کی طرح
قرض لیکر ہم قرض چکاتے ہیں
جان لو قرض ہے ایک مرض کی طرح
قرض عوام کے کھاتے میں ڈال کر
عیش کرتے ہیں خود رئیسوں کی طرح
قرض خود آپس میں بانٹ لیتے ہیں
عوام کو بہلاتے ہیں بچوں کی طرح
ڈالر اپنے کھاتوں میں ڈال کر چُپ چاپ
ورغلاتے ہیں ہمیں شیطانوں کی طرح
آپ نے ہمارے دکھوں کو بڑھایا ہے بہت
اب فیصلے کرو خدارا انسانوں کی طرح
وعدے تو بہت کئے تھے الیکشن سے پہلے
وعدے پورا بھی کرو اللہ کے بندوں کی طرح
وعدہ خلافی بہت بڑا جرم ہے شریف بھائی
کچھ تو اپنے زبان کی لاج رکھو مومنوں کی طرح
بہت سنا ہم نے اپ کی دریا دلی کے قصّے
اب کیوں پیش آرہا ہے ہم سے ظالموں کی طرح
لگتا ہے ہم کو آپ اور زرداری بھائی بھائی
پانچ سال اُس نے بھی لوٹا ہمیں ڈاکوؤں کی طرح
ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے
کیوں ہم سے یہ سلوگ قصائیوں کی طرح
مانا کہ آپ نواز ہے ہمیشہ اپنوں کو نوازتے ہیں
کچھ ہم کو بھی نواز دو مہمان نوازوں کی طرح
اپنا مال متاع سب فارن میں لگا رکھا ہے
غیروں سے یہ تمنّا ہے محض سرابوں کی طرح
چوروں کا بل شریفوں سے وصول کرتا ہے
کوئی تو سچ کو سامنے لائے افتخار کی طرح
دُکھ جھیلیں بی فاختہ کوّے انڈے کھائیں
کیسا ہے دیس کا قانون اندھوں کی طرح
جو ملک و قوم کو لوٹے وہ ہیرو کہلائے
جو دکھ جھیلے ملک کے خاطر وہ زیرو کی طرح
نقّار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے پُرکی
یہ ارمان بھی دب گئی میری اور ارمانوں کی طرح
خود کَش اور خود کُشی کو زرا غور سے سمجھو
ہم بھی یہ صفات رکھتے ہیں طالبان کی طرح
عقل و دانش کو ڈھونڈو محنت اور لگن سے
جو اپنی ذات میں دشمن ہو وہ سدھرے کا کس طرح
کچھ تو کر ملک میں جلد مہنگائی کا علاج
ورنہ عوام ٹوٹ پڑیں گے دیوانوں کی طرح