ہمیں بھی مسکرانا چاہیے تھا
مگر کوئی بہانہ چاہیے تھا
محبت ریل کی پٹری نہیں تھی
کہیں تو موڑ آنا چاہیے تھا
ترے کاندھے پہ رکھ کر سر کسی دن
ہمیں بھی بھول جانا چاہیے تھا
مری لغزش خدا سے کیوں شکایت
ارے مجھ کو بتانا چاہیے تھا
یہ تم نے خود کو پتھر کر لیا کیوں
مری جاں ٹوٹ جانا چاہیے تھا
ہمی کیا توڑتے ساری خموشی
تمہیں بھی گنگنانا چاہیے تھا