یہ نہ تھی ہماری قسمت، بہم سر پہ بال ہوتے
جو نہ ہوتے ہم بھی ٹکلے، بہت با کمال ہوتے
کوئی تیل اور نہ چمپی، نہ دوا اور نہ لوشن
اگر بال پھر سے اُگتے، ہم بھی بے مثال ہوتے
گھوڑوں کی دُم کے دَم سے کئی ایک سَر چھُپے ہیں
پر کھُجلی سے مَر نہ جاتے، سر پہ گر ایال ہوتے
سُنا ہے کہ گنج پن سے، ملتا ہے گنج سب کو
ہمیں کیا بُرا تھا گنج پن، اگر صاحبِ مال ہوتے
بڑی بوڑھیوں کے ٹوٹکے، نہ چھُپا سکے یہ چندا
رہا سر میرا چمکتا، رہے تیل استعمال ہوتے
کبھی جاتے سُوئے نائی، تو ہوتی تھی ہاتھا پائی
دو منٹ کے ہئیر کٹ سے، جب “فارغ البال“ ہوتے
بڑی حسرتیں تھیں سرور کہ ہئیر اسٹائل بدلتے
رہی مانگ اپنی سینٹرل، رہے ہم نڈھال ہوتے